الأذان والإقامة
زياد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب صبح کی نماز کی اذان کا وقت ہوا تو نبی ﷺ نے مجھے اذان دینے کا حکم دیا چنانچہ میں نے اذان دی۔ میں پوچھنے لگا کہ یارسول اللہ! میں اقامت کہوں؟ آپ ﷺ مشرق کی طرف دیکھتے جو طلوع فجر کی سمت تھی اور فرماتے نہیں۔ یہاں تک کہ جب فجر طلوع ہوگئی تو آپ ﷺ نیچے اترے اور قضائے حاجت کی۔ پھر آپ ﷺ واپس آئے تو آپ ﷺ کے صحابہ بھی آپ ﷺ سے آ ملے تھے۔ آپ ﷺ نے وضو کیا۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنا چاہی تو نبی ﷺ نے انہیں فرمایا صداء قبیلے کے شخص نے اذان دی تھی، جو اذان دے اقامت بھی وہی کہے۔ صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ںے اقامت کہی۔
عن زياد بن الحارث الصُّدائي -رضي الله عنه- قال: لما كان أول أذان الصبح أمرني يعني النبي -صلى الله عليه وسلم- فأذنت، فجعلت أقول: أقيم يا رسول الله؟ فجعل ينظر إلى ناحية المشرق وهي جهة طلوع الفجر، فيقول: «لا» حتى إذا طلع الفجر نزل فبرز، ثم أتى وقد تلاحق أصحابه -يعني فتوضأ- فأراد بلال أن يقيم، فقال له نبي الله -صلى الله عليه وسلم-: «إن أخا صداء هو أذن، ومن أذن فهو يقيم»، قال الصدائي -رضي الله عنه-: فأقمت.
شرح الحديث :
حدیث شریف میں اس بات کا بیان ہے کہ جو اذان دے اقامت کہنے کا بھی وہی زیادہ حق دار ہے۔ اسی طرح اس میں اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ اقامت کے وقت میں اقامت کا حق امام کے پاس ہوتا ہے۔ تاہم یہ حدیث ضعیف ہے۔ اگر موذن کے بجائے کسی اور شخص نے اقامت کہہ دی تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم اگر مسجد کا کوئی متعین موذن ہو اور دائمی امام ہو تو اس صورت میں کسی کو ان کے کام میں دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا "کوئی شخص کسی اور شخص کے دائرۂ اختیار میں امامت نہ کرائے اور نہ ہی گھر میں اس کے بیٹھنے کی جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھے۔" اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔