صفة الوضوء
عمرو بن کعب یا کعب بن عمرو ہمدانی رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ میں نبی ﷺ کے پاس گیا۔ آپ ﷺ وضو کر رہے تھے اور پانی آپ کے چہرے اور داڑھی سے سینے پر بہہ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کلی اور ناک کے لیے الگ الگ پانی لے رہے تھے۔  
عن عمرو بن كعب أو كعب بن عمرو الهمداني -رضي الله عنه- قال: دَخَلْتُ -يَعْنِى: عَلَى النَّبِي صلى الله عليه وسلم- وَهُوَ يَتَوَضَّأُ وَالْمَاءُ يَسِيلُ مِنْ وَجْهِهِ وَلِحْيَتِهِ عَلَى صَدْرِهِ فَرَأَيْتُهُ يَفْصِلُ بَيْنَ الْمَضْمَضَةِ وَالاِسْتِنْشَاقِ.

شرح الحديث :


طلحہ ابن مصرف پنے والد اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں، جن کا بیان ہے کہ میں نبی ﷺ کے پاس آیا، جب کہ آپ ﷺ وضو فرما رہے تھے اور پانی کے قطرے آپ کے چہرے اور داڑھی سے ٹپک رہے تھے۔ میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ کلی اور استنشاق الگ الگ کر رہے تھے۔ یعنی آپ ﷺ ایک چلو پانی کلی کے لیے لیتے اور ایک چلو ناک میں پانی ڈالنے کے لیے۔ اگر آپ ﷺ نے ہر ایک کے لیے تین تین چلو بھرے، تو کل چھے چلو ہو جائیں گے۔ یعنی تین کلی کے لیے اور تین ناک میں پانی ڈالنے کے لیے۔ یہ حدیث اس شخص کی دلیل ہے، جس کی رائے میں کلی اور استنشاق کو الگ الگ کرنا چاہیے۔ لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، جو حجت نہیں بن سکتی۔ نبی ﷺ سے جو عمل ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کلی اور استنشاق کے لیے الگ الگ پانی نہیں لیتے تھے؛ بلکہ ایک ہی پانی سے کلی اور استنشاق کر لیتے۔ یعنی ایک چلو لیتے جس کے آدھے پانی کو منہ میں ڈالتے اور آدھے کو ناک میں؛ کیوںکہ منہ اور ناک دونوں ایک ہی عضو یعنی چہرے میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ ناک کے لیے نیا پانی لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی ﷺ سے جو عمل ثابت ہے، وہ ایک ہی پانی سے کلی اور استنشاق کرنا ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية