كرمه صلى الله عليه وسلم
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ايسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی چيز کا سوال کيا گيا ہو اور آپ ﷺ نے (جواب ميں) ’’نہيں‘‘ فرمایا ہو۔ اور انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ سے اسلام لانے پر کسی چيز کا سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے وہ ضرور دی۔ (ایک دفعہ) آپ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا تو آپ ﷺ نے دو پہاڑوں کے درميان موجود ساری بکریاں اسے دے دیں۔ وہ واپس اپنی قوم کے پاس گيا اور کہا: اے میری قوم والو! اسلام قبول کرلو، کیوں کہ محمد (ﷺ) اس شخص کی طرح عطا کرتے ہیں جسے فقر کا انديشہ نہیں ہوتا۔ يقيناً ايک آدمی صرف دنیا حاصل کرنے کی غرض سے اسلام قبول کرتا، ليکن تھوڑا ہی عرصہ گزرتا کہ اسلام اسے دنیا اور اس میں موجود تمام چيزوں سے زیادہ محبوب ہو جاتا۔
عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: ما سُئل رسول الله - صلى الله عليه وسلم- شيئا قطُّ، فقال: لا. وعن أنس -رضي الله عنه- قال: ما سئل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على الإسلام شيئا إلا أعطاه، ولقد جاءه رجل، فأعطاه غنما بين جبلين، فرجع إلى قومه، فقال: يا قوم، أسلموا فإن محمدا يعطي عطاء من لا يخشى الفقر، وإن كان الرجل ليسلم ما يريد إلا الدنيا، فما يلبث إلا يسيرا حتى يكون الإسلام أحب إليه من الدنيا وما عليها.
شرح الحديث :
حدیث کا مفہوم: ایسا کبھی نہ ہوا کہ نبی ﷺ سے کسی نے دنیوی امورمیں سے کچھ مانگا ہو اور آپ ﷺ نے “ نہيں” کہہ کر دینے سے انکار کر دیا ہو۔ بلکہ اگر وہ چيز آپ ﷺ کے پاس ہوتی تو آپ ﷺ اسے ضرور دے دیتے یا پھر اس مانگنے والے کو اللہ کے حکم "وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ" [الضحى : 10]۔ ( ترجمہ: اور سوال کرنے والے کو نہ جھڑکيں۔) کی تعمیل میں کوئی اچھی بات کہہ دیتے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے الادب المفرد میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ: ’’نبی ﷺ بہت شفیق تھے۔ آپ ﷺ کے پاس جو بھی شخص (کوئی چيز مانگنے کے لئے) آتا تو آپ ﷺ اس سے دینے کا وعدہ کر لیتے اور اگر آپ ﷺ کے پاس وہ چيز ہوتی تو دے دیتے۔ شیخ البانی نے "التعلیقات علی الأدب المفرد" (ص: 145) میں اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا۔ آپ ﷺ نے اپنی ازواج کے پاس (اس کا کھانا منگانے کے لئے) ایک آدمی کو بھیجا۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کون ہے جو اس کو اپنے ساتھ لے جائے؟ یا یہ فرمایا کہ: کون ہے جو اس کی مہمان نوازی کرے؟‘‘ اسے امام بخاری (حدیث نمبر: 3798 ) نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری (حدیث نمبر: 2093) میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ایک عورت آپ ﷺ کے پاس ایک چادر لے کر آئی... اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے یہ آپ کو پہنانے کے لیے اپنے ہاتھ سے بنا ہے۔ نبی ﷺ نے اسے لے لیا اور آپ ﷺ کو اس کی ضرورت بھی تھی۔ آپ ﷺ ہمارے پاس آئے تو وہ چادر آپ ﷺ کی تہ بند تھی۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اسے مجھے پہنا دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ نبی ﷺ اس مجلس میں (کچھ دیر) تشریف فرما رہے۔ پھر واپس چلے گئے اور اس چادر کو لپيٹ کر آپ ﷺ نے اس آدمی کے پاس بھیج ديا۔ لوگوں نے اس سے کہا: تم نے اچھا نہیں کیا، تم نے یہ چادر آپ ﷺ سے مانگ لی حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ آپ ﷺ کسی مانگنے والے کو منع نہیں کرتے ہيں۔ اس پر وہ آدمی کہنے لگا: اللہ کی قسم! میں نے آپ ﷺ سے صرف اس لیے مانگا کہ ميری وفات کے دن يہ میرا کفن بن جائے۔ سہل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہی چادر اس کا کفن بنى۔ آپ ﷺ کا مانگنے والے کے ساتھ یہی رویہ ہوا کرتا تھا۔ اگر وہ چيز آپ ﷺ کے پاس ہوتی تھی تو آپ ﷺ اسے عنایت کردیتے تھے اگرچہ آپ ﷺ کو اس کی ضرورت ہی ہوتی۔ اور اگر وہ آپ ﷺ کے پاس نہیں ہوتی تو پھر آپ ﷺ مانگنے والے سے معذرت کر لیتے یا پھر کسی اور وقت کا اس سے وعدہ کر لیتے یا پھر اس کے لیے اپنے صحابہ سے سفارش کرديتے تھے۔ یہ آپ ﷺ کا جود و کرم اور حسن اخلاق تها۔