فضل صلاة الجماعة وأحكامها
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک نابینا شخص حاضر ہوا اور پوچھا: اے الله كے رسول! میرا کوئی قائد نہیں جو مجھے مسجد تک لے آیا کرے۔ پس اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ اسے اس بات کی رخصت دی جائے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھ لیا کرے، تو آپ صلى الله علیہ وسلم نےاسے رخصت فرما دی، جب اس نے جانے کے لیے پیٹھ پھیری تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور اس سے پوچھا: ’’کیا تو نماز کی اذان سنتا ہے؟‘‘ اس نے كہا: جی ہاں،تو آپ ﷺ نےفرمایا: ’’پھر اس کا جواب دے۔‘‘ (یا قبول کر یعنی مسجد ہی میں آ کر جماعت سے نماز پڑھ)۔  
عن أبي هريرة، قال: أتَى النبي -صلى الله عليه وسلم- رجُلٌ أعْمَى، فقال: يا رسول الله، إنه ليس لي قائد يَقُودُني إلى المسجد، فَسَأل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن يُرَخِّص له فيصلِّي في بَيْتِه، فرَخَّص له، فلمَّا ولىَّ دَعَاه، فقال: «هل تسمع النِّداء بالصلاة؟» قال: نعم، قال: «فأجِب».

شرح الحديث :


نبی ﷺ وسلم کی خدمت میں ایک نابینا شخص حاضر ہوئے اور پوچھا: اے الله كے رسول! میں ایک نابینا شخص ہوں میرے ساتھ کوئی ایسا شخص نہیں جو میری مدد کرے اور پنج گانہ نمازوں میں مسجد تک (پہنچنے کے لیے) میرا ہاتھ پکڑ لے۔ وہ چاہ رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں جماعت چھوڑنے کی اجازت دے دیں۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اجازت دے دی۔ جب وہ پلٹ کر جانے لگے تو آپ ﷺ نے انہیں آواز دی اور پوچھا: کیا تم نماز کے لیے (دی جانے والی) اذان کی آواز سنتے ہو؟ انہوں نے كہا: ہاں۔تو آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر نماز کے لئے آواز لگانے والے کی آواز پر لبیک کہو۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية