الربا
عمر ابن خطاب - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سونا سونے کے بدلہ میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے۔چاندی چاندی کے بدلے اگر نقد نہ ہو تو سود ہو جاتی ہے۔ گیہوں گیہوں کے بدلے میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے۔ جَو جَو کے بدلہ میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے۔
عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- مرفوعاً: «الذهب بالذهب رِباً، إلا هَاءَ وَهَاءَ، والفضة بالفضة ربا، إلا هَاءَ وهَاءَ، والبُرُّ بالبُرِّ ربا، إلا هاء وهاء. والشعير بالشعير ربا، إلا هاء وهاء».
شرح الحديث :
نبی ﷺ اس حدیث میں خرید و فروخت کی ان انواع میں سے جن میں سود کا عنصر ہوتا ہے، اُن میں خرید و فروخت کی صحیح صورت کی وضاحت فرما رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جو شخص چاندی کے بدلے میں سونے کو بیچتا ہے یا سونے کے بدلے میں چاندی بیچتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مجلس عقد ہی میں ان کا نقد لین دین ہو جائے ورنہ عقد درست نہیں ہو گا۔ کیوں کہ بیع کی یہ صورت ’بیع صرف‘ کہلاتی ہے جس کے صحیح ہونے کے لیے دونوں اطراف سے قبضہ کرنا ضروری نیز جنس کے مختلف ہونے کی وجہ سے ان میں برابری کی شرط نہیں لگائی جائے گی۔جیسے کوئی شخص گیہوں کو جَو کے بدلے میں خریدتا ہے یا اس کا برعکس کرتا ہے تو اس صورت میں مجلس عقد ہی میں دونوں اطراف سے قبضہ کرنا ضروری ہے کیوں کہ ان اشیاء میں علت ربا پائی جاتی ہے جس سے عقد فاسد ہو جاتا ہے جب کہ قبضہ کرنے سے پہلے ہی فریقین عقد ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں۔جب جنس ایک ہو تو اس صورت میں باہمی طور پر قبضہ کرنا بھی ضروری ہے اور ان میں برابری بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ سونے کی سونے کے بدلے کی تجارت میں، اگرچہ عمدگی کے لحاظ سے ان میں فرق ہی کیوں نہ پایا جائے۔ اگر جنس مختلف ہو لیکن علت ایک ہو تو اس صورت میں صرف باہمی طور پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔ اس میں دونوں اطراف کے سامان تجارت کا برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔جیسے سونے کی كرنسی نوٹوں کے بدلے میں خرید و فروخت۔ جب علت مختلف ہو یا پھر مال تجارت ربوی نہ ہو تو اس صورت میں کوئی شرط نہیں ہوتی۔ چنانچہ اس میں ادھار کرنا اور باہم دگر اضافہ کر کے بیچنا جائز ہے۔