شفقته صلى الله عليه وسلم
عمرو بن عوف انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ " رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین جزیہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا ۔ جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین کا مال لے کر آئے تو انصار نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی آمد کے متعلق سن لیا۔چنانچہ فجر کی نماز سب لوگوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ پڑھی۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھا چکے تو لوگ رسول الله ﷺ کے سامنے آئے ۔ رسول الله ﷺ انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ بحرین سے کچھ لے کر آئے ہیں؟ انصار صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا جی ہاں اللہ کے رسول، آپ ﷺ نے فرمایا ، تمہارے لیے خوشخبری ہے اور اس چیز کے لیے تم پرامید رہو۔ جس سے تمہیں خوشی ملنے والی ہے، لیکن اللہ کی قسم ! میں تمہارے بارے میں محتاجی اور فقر سے نہیں ڈرتا۔ مجھے اگر خوف ہے تو اس بات کا ہے کہ دنیا کے دروازے تم پر اس طرح کھول دیے جائیں گے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کھول دیے گئے تھے ، پس تم بھی ان کی طرح ایک دوسرے سےمقابلہ بازی شروع کردو اور یہ مقابلہ بازی تمہیں بھی اسی طرح تباہ کر دے گی جیسا کہ پہلے لوگوں کو کیا تھا‘‘۔
عن عمرو بن عوف الأنصاري -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بعث أبا عبيدة بن الجراح -رضي الله عنه- إلى البحرين يأتي بِجِزْيَتِهَا، فَقدِم بمالٍ من البحرين، فسمعت الأنصار بقدوم أبي عبيدة، فَوَافَوْا صلاة الفجر مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فلما صلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- انصرف، فَتَعَرَّضُوا له، فتَبسَّم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حين رآهم، ثم قال: «أَظُنُّكُمْ سَمِعتم أن أبا عبيدة قَدِم بشيءٍ من البحرين؟» فقالوا: أجل، يا رسول الله، فقال: «أبشروا وأمِّلوا ما يَسُرُّكُم، فوالله ما الفَقرَ أخشى عليكم، ولكني أخَشى أن تُبْسَط الدنيا عليكم كما بُسِطَت على من كان قبلكم، فتَنَافسوها كما تَنَافسوها، فَتُهْلِكَكُم كما أهْلَكَتْهُمْ».
شرح الحديث :
رسول اللہﷺ نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو بحرین جزیہ لینے کے لیے بھیجا۔ جب وہ واپس مدینہ پہنچے اور انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی تو سب نماز فجر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوگئے۔جب آپ ﷺ نے نماز پڑھنے کے بعد رخ پھیرا تو سب آپ کے سامنے آگئے اس پر آپ ﷺ مسکرا دیے کیونکہ وہ مال کی جستجو میں آئے تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: لگتا ہے کہ تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ بحرین سے واپس آ گئے ہیں ؟ وہ کہنے لگے کہ: جی ہاں، اللہ کے رسول! ہم نے یہ سنا تھا یعنی اپنا حصہ لینے کے لئے ہم آئے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے انہیں اس شے کی بشارت دی جو انہیں خوش کرنے والی تھی۔ آپ ﷺ نے انہیں یہ بتایا کہ آپ ﷺ کو ان کے بارے میں فقر کا اندیشہ نہیں ہے کیونکہ غریب شخص عام طور پر امیر شخص سے زیادہ حق کے قریب ہوتا ہے ۔ بلکہ اگر اندیشہ ہے تو اس بات کا کہ دنیا کے دروازے ان پر کھول دیے جائیں اور وہ اس کے حصول میں ایک دوسرے سے مقابلہ بازی شروع کردیں ۔ اس وقت انسان کو جو کچھ مل رہا ہوگا اسے وہ کافی نہیں سمجھے گا بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ کی حرص رکھےگا اور اسے کوئی فکر نہیں ہوگی کہ اسے مال کس طریقے سے مل رہا ہے اور نہ ہی وہ حلال و حرام کی پرواہ کرے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی مقابلہ آرائی مذموم ہے جو دنیا کی رغبت دلائے اور آخرت سے بے گانہ کردے اور اس میں پڑنے والا شخص اسی طرح ہلاکت کا شکار ہوجائے جیسے اس سے پہلے لوگ ہوئے تھے۔