صدقة التطوع
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم میں کون ہے وہ شخص کہ جسے اپنے وارث کا مال خود اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو؟" صحابہ نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! ایسا تو کوئی بھی نہیں، ہر کسی کو اپنا ہی مال زیادہ محبوب ہے-" آپ ﷺ نے فرمایا "آدمی کا مال وہی ہے جو اس نے آگے بھیجا (جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا) اور جتنا مال وہ چھوڑ گیا وہ اس کے وارثوں کا ہے"۔
عن ابن مسعود -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أيُّكم مالُ وارثِه أحَبُّ إليه من مالَه؟» قالوا: يا رسول الله، ما منَّا أحد إلا مَالُه أحَبُّ إليه. قال: «فإن مالَه ما قدَّم، ومالُ وارثِه ما أخَّر».
شرح الحديث :
نبی ﷺ اپنے صحابہ سے دریافت کر رہے ہیں کہ "تم میں ایسا کون شخص ہوگا جسے اپنے وارث کا مال خود اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو؟" یعنی تم میں سے کون شخص ہے جسے اپنے بعد اپنے وارث کی ملکیت میں آنے والا مال اس مال سے زیادہ محبوب ہے جو اس کی زندگی میں اس کی ملکیت ہے؟ صحابہ نے جواب دیا کہ ہم میں سے ہر کسی کو اس کا اپنا مال ہی زیادہ محبوب ہے۔ یعنی ہر شخص اسی مال کو زیادہ محبوب رکھتا ہے جو اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور جس پر اسے تصرف مطلق حاصل ہوتا ہے بنسبت کسی دوسرے کے مال کے ۔ کیونکہ جو مال اس کی ملکیت ہے وہ اس کی خواہشات و رغبات کے پورا ہونے کا ایک ذریعہ ہوتاہے۔ "آدمی کا مال وہ ہے جو اس نے آگے بھیجا " اس سے مراد وہ مال جسے انسان اپنی زندگی میں اپنے اوپر صرف کرتاہے یا پھر نیک اعمال میں لگاتا ہے جیسا کہ حج یا وقف یا پھر کسی مدرسے ، مسجد اور ہسپتال کی تعمیر میں صرف کرتا ہے یا پھر خود اپنے آپ پر اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرتاہے ۔ یہی اس کا حقیقی مال ہوتاہے جسے وہ روز قیامت اپنےسامنے پائے گا (یعنی اسے خرچ کرنے کا اجر اسے ملے گا) ۔ باقی رہا وہ مال جسے وہ اپنی زندگی میں جمع کر کرکے رکھتا ہے اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے وہ اس کے وارثوں کا مال ہوتا ہے جس میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اس باب کے معنی میں وہ روایت بھی ہے جسے امام مسلم نے عبداللہ بن شِخیر رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے پاس آیا اس وقت آپ ﷺ سورہ ’الہاکم التکاثر‘‘ پڑھ رہے تھے، آپ ﷺ نے اس وقت فرمایا ’’ ابن آدم میرا مال میرا مال کی رٹ لگاتا ہے، کہا ابن آدم تیرا مال اس کے سوا اور کیا ہے جسے تونے کھا پی کر ختم کردیا، یا پہن کر اسے بوسیدہ کردیا یا اسے صدقہ کرکے چلتا بنا‘‘۔ تاہم اس کا یہ معنی بھی نہیں ہے کہ انسان اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردے پھر وہ اور اس کے بچے لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے پھریں، بلکہ حدیث کا مدعا یہ ہے کہ انسان جس طرح اپنے بعد اپنے وارثین کے لیے مال ودولت جمع کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے اسی طرح اپنے ذاتی اخراجات، نیز اپنے اہل و عیال جیسے بیوی بچے اور والدین کے صرفے سے جو رقم زائد ہو اُس سے اپنی آخرت کے لیے بھی زادِ راہ جمع کرنے کی کوشش کرے، اس لیے اُن پر خرچ کرنا واجب ہے اگر اُن پر خرچ نہیں کرے گا تو انسان گناہ گار ہوگا، اس پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس کی روایت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ اے ابن آدم! اگر تو اپنے مال کو خرچ کرتا ہے تو یہ تیرے حق میں بہتر ہے اور اگر اُسے روکے رکھتا ہے تو تیرے حق میں بُرا ہے‘‘۔ (امام مسلم نے (2/718) میں حدیث نمبر (1036) کے تحت اس کی روایت کی ہے)۔