آداب السلام والاستئذان
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو انہیں حکم دیا کہ جاؤ اور فرشتوں کی اس جماعت کو جو بیٹھی ہے، سلام کرو اور سنو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں، یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔چنانچہ انہوں نے کہا: السلام علیکم۔ فرشتوں نے جواب دیا:السلام علیک و رحمۃ اللہ۔ ان فرشتوں نے لفظ رحمۃ اللہ کا اضافہ کیا‘‘۔  
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لما خلق الله آدم -صلى الله عليه وسلم- قال: اذهب فَسَلِّمْ على أولئك -نَفَرٍ من الملائكة جلوس- فاستمع ما يُحَيُّونَكَ؛ فإنها تَحِيَّتُكَ وتحية ذُرِّيتِكَ. فقال: السلام عليكم، فقالوا: السلام عليك ورحمة الله، فَزَادُوهُ: ورحمة الله».

شرح الحديث :


حدیث کا مفہوم: جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو انہیں حکم دیا کہ فرشتوں کی ایک جماعت کو جا کر سلام کریں اور وہ انہیں جو جواب دیں اسے سنیں۔ یہ باہمی سلام و جواب ان کے لیے اور ان کے بعد ان کی اولاد کے لیے، جو رسولوں کے لائے گئے دین پر قائم ہوں گے، مشروع سلام ہو گا۔ چنانچہ آدم علیہ السلام نے کہا: السلام علیکم۔ اوراس کے جواب میں فرشتوں نے کہا: السلام عليك ورحمة الله۔ فرشتوں نے "ورحمۃ اللہ" کے الفاظ کا اضافہ کیا۔ چنانچہ سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کے لیے یہی الفاظ مشروع ٹھہرے۔دیگر احادیث میں ''و رحمۃ اللہ و برکاتہ'' کے الفاظ کی زیادتی آئی ہے چاہے یہ سلام کرنے میں ہو یا اس کا جواب دینے میں۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية