الهجرة
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ غار میں تھے، میں نے مشرکین کے پاؤں کی طرف دیکھا، وہ ہمارے سروں پر تھے، میں نے کہا اے اللہ کے رسول! ان میں سے کوئی اگر اپنے پاؤں کے نیچے دیکھ لے تو ہم انہیں نظر آ جائیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:اے ابو بکر! ان دو لوگوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔  
عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال: نَظَرت إِلى أقدام المشركين ونحن في الغار وهم على رؤُوسِنا، فقلت: يا رسول الله، لَو أنَّ أحَدَهم نظر تحت قدَمَيه لأَبصَرَنا، فقال: «مَا ظَنُّكَ يَا أَبَا بَكرٍ بِاثنَينِ الله ثَالِثُهُمَا».

شرح الحديث :


یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ جب آپ ﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ جب آپ ﷺ نے اعلانیہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، لوگوں کو بلایا اور لوگوں نے آپ کی اتباع کی۔ مشرکین ڈر گئے اور آپ کی دعوت کے خلاف کھڑے ہوگئے، آپ ﷺ پر سختی کی اورقول و فعل کے ذریعہ آپ ﷺ کو تکلیفیں پہنچائیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی۔ آپ ﷺ کے ساتھ صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ، راہبر اور خادم تھے۔پس آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے سے ہجرت کی اور آپ ﷺ کے ساتھ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہو لیے، جب مشرکین نے آپ ﷺ کی مکہ سے روانگی کی خبر سنی تو آپ ﷺ کو پکڑ کر لانے والے کو دو سو (200) اونٹ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پکڑ لانے پر سو (100) اونٹ انعام رکھا، لوگ آپ دونوں کو پہاڑوں، وادیوں اور غاروں اور ہر جگہ تلاش کرنے لگے، یہاں تک کہ اس غار پر آ رُکے جس میں نبی ﷺ اور ابوبکر پناہ گزین تھے۔ یہ غار ثور ہے جہاں تین دنوں تک چھپے رہے یہاں تک کہ آپ دونوں کی تلاش کا معاملہ نرم پڑگیا، چنانچہ اسی موقعہ سے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا اے اللہ کے رسول ﷺ! ان میں سے کوئی اگر اپنے پاؤں کے نیچے دیکھ لے تو ہم انہیں نظر آ جائیں۔ اس لیے کہ ہم ان کے قدموں کے نیچے غار میں ہی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:اے ابو بکر! ان دو لوگوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا“ (سورۃ التوبۃ: 40) ترجمہ: غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔) ممکن ہے کہ آپ ﷺ نے یہ دونوں جملے بھی کہے ہوں یعنی ”ما ظنك باثنين الله ثالثهما“ اور ”لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا“۔ آپ ﷺ کا یہ قول: ”ان دو لوگوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے“ یعنی کیا کوئی ان دونوں کو اذیت وغیرہ پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے؟ اور جواب ہے: نہیں کوئی یہ طاقت نہیں رکھ سکتا ہے۔ اس لیے کہ جسے اللہ دینا چاہے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ روکنا چاہے اسے کوئی دینے والا نہیں، اس کو کوئی رسوا نہیں کرسکتا جسے اللہ تعالی عزت دے اور جسے اللہ ذلیل کر دے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں، (فرمان الٰہی ہے) "قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ" (آل عمران: 26) (ترجمہ: آپ کہہ دیجیے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے“۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية