حد الخمر
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپ نے فرمایا: "اسے مارو۔" ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ كا بيان ہے کہ: تو ہم میں سے کوئى اسے اپنے ہاتھ سے، كوئى اپنے جوتے سے اور کوئى اپنے کپڑے سے ماررہا تھا۔ جب وہ (مار كهاكر) جانے لگا تو لوگوں میں سے کسی نے کہا: اللہ تجھے رسوا کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "اس طرح مت کہو، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو۔"  
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: أُتِي النبي -صلى الله عليه وسلم- برجل قد شَرِب خمرا، قال: «اضربوه». قال أبو هريرة: فمنا الضارب بيده، والضارب بنعله، والضارب بثوبه، فلما انصرف، قال بعض القوم: أخزاك الله، قال: «لا تقولوا هكذا، لا تُعِينُوا عليه الشيطان».

شرح الحديث :


حدیث کا معنی: صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نبیﷺ کے پاس ایک آدمی کو لے کر آئے جس نے شراب نوشی کی تھی۔ آپ ﷺ نےاسے مارنے کا حکم دیا۔ چنانچہ صحابۂ کرام نے اسے مارا۔ ان میں سے کچھ نے اسے مارنے کے کسی دوسرے آلے کے استعمال کے بغیر خالی اپنے ہاتھ سے مارا، تو کسی نے اسے اپنے جوتے سے مارا اور یہ اسے عبرتناک سزا دینے کے طورپرتھی، اور کسی نے اسے اپنے کپڑے سے مارا۔ جبکہ انہوں نے کوڑے کا استعمال نہیں کیا جوکہ مارنے سے متعلق شرعی حد (کے نفاذ) کا آلہ ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے بیس آدمیوں کو حکم دیا تو ان میں سے ہر ایک نے اسے چھڑی اور جوتے سے دو دو ضرب لگائے۔ اس سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ کوڑوں کی تعداد چالیس ہے، اورخلفائے راشدین سے اس پر جو اضافہ وارد ہے وہ بطور تعزیر ہے جو امام وقت (حاکم) کی صوابدید پر منحصر ہے۔ پھرجب لوگ اسے مار نے سے فارغ ہوگئے تو ان میں سے کسی نے اسے یہ بددعا دی کہ: "اللہ تجھے رسوا کرے" یعنی اسے رسوائی کی بددعا دی، جس کا مطلب لوگوں کے بیچ ذلت وخواری، اہانت و حقارت اور فضیحت و رسوائی ہے۔ تو اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: "ا سے اس طرح مت کہو، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو۔" کیونکہ جب لوگ اسے ذلت ورسوائی کی بددعا دیں گے تو بسا اوقات ان کی بددعا قبول ہوسکتی ہے، تو اس طرح شیطان اپنی مراد کو پہنچ جائے گا اور اس کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ نیز اس لیے تاکہ گناہ گار سے نفرت نہ کی جائے جبکہ اس پرحد کا نفاذ ہو چکا ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية