وفاته صلى الله عليه وسلم
اُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ تمام ازواجِ مطہرات (نبی کریم ﷺ کے مرض الموت میں) نبی کریم ﷺ کے پاس تھیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہوئی آئیں۔ ان کی چال، رسول اللہ ﷺ کی چال سےبالکل الگ نہیں تھی (بلکہ بہت ہی مشابہ تھی)۔ جب نبی کریم ﷺ نے انھیں دیکھا تو خوش آمدید کہا۔ فرمایا بیٹی! مرحبا! پھر نبی کریم ﷺ نے اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف انھیں بٹھا لیا۔ اس کے بعد چپکے سے ان کے کان میں کچھ کہا تو فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت زیادہ رونے لگیں۔ جب نبی کریم ﷺ نے ان کا غم دیکھا تو دوبارہ ان سے سرگوشی کی، اس پر وہ ہنسنے لگیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا بات ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہم میں سے صرف آپ کو سرگوشی کی خصوصیت بخشی۔ پھر آپ رونے لگیں! جب نبی کریم ﷺ اٹھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے کان میں نبی کریم ﷺ نے کیا فرمایا تھا؟، انھوں نے کہا کہ :میں نبی کریم ﷺ کے راز کو فاش نہیں کرسکتی۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ: میرا جو حق آپ پر ہے، اس کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ مجھے وہ بات بتا دیں جو رسول اللہ ﷺ نے آپ سے فرمائی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ہاں،اب بتا سکتی ہوں، جب نبی کریم ﷺ نے مجھ سے پہلی سرگوشی کی تھی تو فرمایا تھا کہ "جبرائیل علیہ السلام ہر سال میرے ساتھ سال میں ایک یا دو مرتبہ دور کیا کرتے تھے لیکن اس سال میرے ساتھ انھوں نے دو مرتبہ دور کیا اور میرا خیال ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آچکا ہے، لہذا تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہنا اور صبر کا دامن تھامے رہنا کیوں کہ میں تمہارے لیے ایک اچھا سَلَفْ (آگے جانے والا) ہوں"۔ اس وقت میرے رونے کی وجہ یہی تھی جسے کہ آپ نے دیکھا تھا۔ جب نبی کریم ﷺ نے میری پریشانی دیکھی تو آپ نے دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی، فرمایا:"فاطمہ! کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جنت میں تم مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو گی، یا (فرمایا کہ)اس امت کی عورتوں کی سردار ہو گی تو میں ہنس پڑی جسے آپ نے دیکھا۔"
عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: كُنَّ أزواجُ النبي -صلى الله عليه وسلم- عنده، فأقبلت فاطمة -رضي الله عنها- تمشي، ما تُخْطِئُ مِشْيَتُها من مِشْيَةِ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- شيئًا، فلما رآها رَحَّبَ بها، وقال: «مَرْحَبًا بابنتي»، ثم أجلسها عن يمينه أو عن شماله، ثم سَارَّهَا فبكت بُكاءً شديدًا، فلما رأى جَزَعَهَا، سَارَّهَا الثانية فضحكت، فقلتُ لها: خَصَّكِ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من بين نسائه بالسِّرَارِ، ثم أنت تَبْكِينَ! فلما قام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سألتها: ما قال لك رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ قالت: ما كنت لأُفْشِيَ على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سِرَّهُ، فلما توفي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قلتُ: عَزَمْتُ عليك بما لي عليك من الحق، لما حَدَّثْتِنِي ما قال لك رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ فقالت: أما الآن فنعم، أما حين سَارَّنِي في المرة الأولى فأخبرني أن جبريل كان يُعارضه القرآن في كل سنة مرة أو مرتين، وأنه عارضه الآن مرتين، وإني لا أرى الأَجَلَ إلا قد اقترب، فاتقي الله واصبري، فإنه نِعْمَ السَّلَفُ أنا لك، فبكيت بكائي الذي رأيتِ، فلما رأى جَزَعِي سَارَّنِي الثانية، فقال: «يا فاطمة، أما تَرْضَينَ أن تكوني سيدة نساء المؤمنين، أو سيدة نساء هذه الأمة؟» فضحكتُ ضحكي الذي رأيتِ.
شرح الحديث :
اُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا ذکر فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کی تمام ازواج مطہرات، آپ ﷺ کے پاس موجود تھیں دریں اثنا فاطمہ رضی اللہ عنھا، آپ ﷺ کے مرض الموت کے موقع پر آپ ﷺ کی عیادت کے لیے تشریف لائیں۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنھا ذکر کرتی ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنھا چلتی ہوئی آئیں تو ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ان کی چال، نبی ﷺ کی چال ہے اور آپ ﷺ کی عادت تھی کہ جب کبھی آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنھا تشریف لاتیں تو آگے بڑھ کر ان کا بوسہ لیتے اور اپنی بیٹھک میں انہیں بھی بٹھالیتے، چنانچہ آپ نے ان کا پُرتپاک خیر مقدم کیا اور اپنے بازو میں بٹھالیا۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنھا اس بات کی خبر دیتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنھا کے کان میں کوئی راز کی بات کہی تو وہ شدت کے ساتھ رو پڑیں اور جب آپ نے ان کے شدید غم کو دیکھا تو دوسری مرتبہ کوئی اور راز کی بات ان کے کان میں کہی تو وہ ہنس پڑیں۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے ان سے اس خاص بات کے بارے میں دریافت کیا جو آپ ﷺ نے اپنی تمام ازواج مطہرات کو چھوڑ کر خاص فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمائی تھی اور جس کی وجہ سے وہ روپڑی تھیں، تو فاطمہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے راز کو عام نہیں کرسکتی۔جب رسول اللہ ﷺ وفات پاگیے تو عائشہ رضی اللہ عنھا نے فاطمہ رضی اللہ عنھا کو قسم دے کر کہا کہ وہ انھیں وہ بات بتائیں جو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمائی تھی۔ انھوں نے کہا کہ اب آپ نے مجھ سے پوچھا ہے تو میں ضرور بتاؤں گی، میرے پہلے رونے کی وجہ یہ تھی کہ جب آپ ﷺ نے مجھ سے پہلی مرتبہ راز کی بات کہی تو آپ نے مجھے یہ بتایا کہ جبریل علیہ السلام ہر سال آپ کے ساتھ ایک یا دو مرتبہ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے اور اس مرتبہ انھوں نے دو مرتبہ دور کرایا اور آپ ﷺ کا خیال تھا کہ یہ آپ کی مدت حیات کے ختم ہونے کا انتباہ ہے اور آپ نے مجھے تقوی اور صبر اختیار کرنے کی تلقین فرمائی، تقوی اور صبر کے ساتھ مجھے پہنچنے والا سلف کا شرف، پیدا ہونے والی جدائی کے غم کا متبادل ہوجائے گا، اسی وجہ سے میں روپڑی جس وقت آپ نے مجھے روتے دیکھا اور جب آپ ﷺ نے میرے شدید غم کو دیکھا تو مجھے اس بات کی بشارت سنائی کہ میں جنت میں ایمان والی عورتوں کی سردار ہو ں گی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہوں گی تو میں ہنس پڑی جو آپ نے دیکھی۔ اس حدیث میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنھا، جنتی خواتین کی سردار ہوں گی، اس کے باوجود روایات کے اختلاف سے اس مسئلہ میں کچھ اور اقوال پائے جاتے ہیں کہ آپ ﷺ نے دوسری مرتبہ ان سے کیا راز کی بات فرمائی اور جس کی بناء پر وہ ہنس پڑیں، ان میں سے چند اقوال حسبِ ذیل ہیں: 1- پہلا قول یہ ہے کہ آپ ﷺ نے انھیں اس بات کی خبر دی کہ وہ آپ کے گھر والوں میں آپ سے سب سے پہلے ملیں گیں۔ 2- دوسرا قول یہ ہے کہ آپ ﷺ نے انھیں یہ خبر دی کہ وہ جنتی عورتوں کی سردار ہوں گی اور آپ کے اہل میں سب سے پہلے آپ ﷺ سے ملنے کی بات کو پہلی (رازدارانہ) بات کے ساتھ جوڑ دیا اور یہی راجح قول ہے۔ 3- تیسرا قول یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نے مجھے خبر دی کہ مسلمانوں کی عورتوں میں کوئی ایسی نہیں جو ذریت و نسل کے اعتبار سے تم سے زیادہ عظمت کی حامل ہو، اس لیے تمہیں ان میں سے کسی عام عورت کی طرح معمولی درجہ کا صبر رکھنے والی خاتون نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ان معانی میں یہ معنی بھی اہمیت کا حامل ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے علمی اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے فاطمہ رضی اللہ عنھا سے انتہائی سبقت کے ساتھ نبی ﷺ اور ان کے درمیان ہوئی راز کی باتوں کے بارے میں دریافت کیا اور نبی ﷺ کی اس عظیم دختر کے جواب کو بھی ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ " میں نبی کریم ﷺ کے راز کو فاش نہیں کرسکتی"، اور یہی امر اس حدیث کا شاہد ہے اور جب نبی ﷺ کی موت سے افشائے راز کا ڈر و خوف ختم ہوگیا تو انھوں نے اس پردۂ راز کو اٹھادیا۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے عنقریب وقوع پذیر ہونے والے امر کی خبر دی اور وہ آپ کے فرمان کے مطابق واقع ہوئی، کیوں کہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنھا ہی وہ پہلی فرد رہیں جو نبی ﷺ کے گھرانے میں آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے بھی پہلے وفات پائیں۔