أحكام الإمام والمأموم
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ’’ میں گدھی پر سوار ہو کرآیا اور ان دنوں میں قریب البلوغت تھا۔ رسول اللہ ﷺ منیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے اور آپ ﷺ کے سامنے کوئی دیوار نہیں تھی۔میں صف کے ایک حصے کے آگے سے گزرا اور پھر نیچے اتر آیا۔ میں نے گدھی چرنے کے لیے چھوڑدی اور خود صف میں شامل ہو گیا۔ کسی نے مجھ پر اعتراض نہیں کیا‘‘۔
عن عبد الله بن عَبَّاس -رضي الله عنهما- قال: أقبلْتُ راكبا على حِمار أَتَانٍ، وأنا يومئذ قد نَاهَزْتُ الاحْتِلامَ، ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصلِّي بالناس بِمِنًى إلى غير جِدار، مررتُ بين يدي بعض الصفّ، فنزلت، فأرسلتُ الأَتَانَ تَرْتَعُ، ودخلتُ في الصفّ، فلم يُنْكِرْ ذلك عليَّ أحد.
شرح الحديث :
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ جب وہ حجۃ الوداع کے موقع پرمنیٰ میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے تو وہ ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے اور صف کے ایک حصے کے آگے سے گزرے۔ نبی ﷺ اس وقت اپنے صحابہ کو نمازپڑھا رہے تھے اور آپ ﷺ کے سامنے کوئی دیوار نہیں تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ گدھی سے نیچے اترے اور اسے چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود صف میں آ گئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما بتاتے ہیں کہ وہ اس وقت قریب البلوغت تھے یعنی وہ ایسی عمر میں تھے کہ اگر وہ کوئی ایسی بات کے مرتکب ہوئے ہوتے جس سے نمازیوں کی نماز خراب ہو جاتی تو ان پر اعتراض کیا جاتا۔ لیکن اس کے باوجود کسی نے بھی اعتراض نہ کیا، نہ تو نبی ﷺ نے اور نہ ہی صحابہ میں سے کسی نے‘‘۔