أعمال القلوب
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول سے محبت۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تو نے محبت رکھی۔‘‘
عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أنَّ أَعْرَابِيًا قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: مَتَى السَّاعَة؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟» قال: حُبُّ الله ورَسُولِه، قال: «أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ».
شرح الحديث :
ایک اعرابی (دیہاتی) نے سوال کیا کہ: ’’قیامت کب آئے گی؟‘‘ اگر آپ ﷺ اسے یہ فرما دیتے کہ: "میں نہیں جانتا" تو اعرابی کا دل مطمئن نہ ہوتا۔ لیکن نبی ﷺ نے بڑے حکیمانہ انداز میں اصل سوال سے ہٹتے ہوئے ایسا جواب دیا جس کو اپنانا اس پر واجب تھا اور اس بات کو چھوڑ دیا جس کا جاننا اس پر واجب نہیں تھا۔ یہی وہ انداز ہے جسے (علم بلاغت کی اصطلاح میں) "اسلوب حکیم" کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟" یہ سوال ایسے کام کی تنبیہہ کرنے اور اس کی یاد دہانی کے لئے تھا جس میں غور و فکر کرنا اور جس میں لگنا اس پر واجب تھا۔ اعرابی نے جواب دیا کہ: ’’اللہ اور اس کے رسول کی محبت''۔ اعرابی نے یہ جواب بے ساختہ پن سے دیا جو مودت و محبت اور ایمان کے جذبات سے لبریز اور اپنے عمل پر بھروسے سے بالکل تہی ہے۔ ایک دوسری روایت میں ان معانی کی مزید تاکید ہوتی ہے جس میں اعرابی کہتا ہے کہ: ’’میں نے اس (قیامت) کے لئے نہ تو زیادہ (نفلی) روزے تیار کیے ہیں، نہ زیادہ (نفلی) نمازیں اور نہ زیادہ صدقہ۔ لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔‘‘ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ: "تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تو محبت کرتا ہے۔" حدیث میں اس بات پر ابھارا گیا ہے کہ رسولوں کے ساتھ مضبوط قسم کی محبت رکھنی چاہئے، ان کے مراتب کے اعتبار سے ان کی اتباع کرنی چاہئے اور اس میں ان کے مخالفین سے محبت رکھنے سے ڈرایا گیا ہے۔ محبت اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ محبت کرنے والا محبوب سے کس حد تک تعلق رکھتا ہے، اس کے اخلاق کس حد تک اس سے مناسبت رکھتے ہیں اور وہ کہاں تک اس کی پیروی کرتا ہے۔