الحياة الآخرة
ابو ہریرہ سے روایت ہے ، انہوں نےکہا کہ ایک دن ہم رسو ل اللہ ﷺ کے ساتھ ایک دعوت میں تھے کہ آپ ﷺکی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دست (کا گوشت) اٹھا کر آپ کو پیش کیا گیا کیونکہ آپ ﷺکو مرغوب تھا، آپ ﷺنے اپنےدندان مبارک سے ایک بار اس سے تناول کیا اور فرمایا ’’ میں قیامت کے دن تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہو گا؟ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اگلوں اور پچھلوں کو ایک ہموار چٹیل میدان میں جمع کرے گا ۔ بلانے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور ( اللہ کی ) نظر سب کے آر پار (سب کو دیکھ رہی ) ہو گی۔ سورج قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو اس قدر غم اور کرب لاحق ہو گا جوان کی طاقت سے زیادہ اور ناقابل برداشت ہو گا۔لوگ ایک دوسرے کہیں گے ’’ کیا دیکھتے نہیں تم کس حالت میں ہو ؟ کیا دیکھتے نہیں تم پر کیسی مصیبت آپڑی ہے ؟ کیا تم کوئی ایسا شخص تلاش نہیں کرتے جو اللہ کے ہاں تمہاری سفارش کردے؟‘‘ چنانچہ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے ’’اپنے باپ آدم کے پاس چلو تو وہ آدم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے :اے آدم (علیہ السلام)! آپ سب انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ میں اپنی (طرف سے) روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟‘‘ آدم جواب دیں گے کہ ’’میرا رب آج اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ اس کے بعد کبھی آئے گا اور یقیناً اس نے مجھے ایک خاص درخت ( کےقریب جانے ) سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی تھی، مجھے اپنی جان کی فکر ہے ، مجھے اپنی جان بچانی ہے ۔تم کسی اور کے پاس جاؤ، نوح(علیہ السلام) کے پاس جاؤ‘‘۔لوگ نوح (علیہ السلام)کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے ’’اے نوح(علیہ السلام)! آپ اہل زمین کی طرف بھیجے گئے سب سے پہلے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندے کا نام دیا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے ؟ وہ انہیں جوا ب دیں گے ’’آج میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں نہ وہ اس سے پہلے کبھی آیا اور نہ آئندہ کبھی آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے لیے ایک دعا (خاص کی گئی) تھی وہ میں نے اپنی قوم کےخلاف مانگ لی۔ (آج تو ) میری اپنی جان (پر بنی) ہے، مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے ، مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے، میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ۔ تم ابراہیم (علیہ السلام)کے پاس جاؤ‘‘۔ چنانچہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام)کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض گزار ہوں گے کہ ’’آپ اللہ کے نبی اور اہل زمین میں سے اس کے خلیل ہیں، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟‘‘ تو ابراہیم (علیہ السلام) ان سے کہیں گے کہ ’’ میرارب اس قدر غصے میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں آیا اور نہ آئندہ کبھی آئے گا ،جب کہ میرے اپنے تین جھوٹ ہیں، مجھے اپنی جان کی فکر ہے، مجھے اپنی جان کی فکر ہے، مجھے اپنی جان کی فکر ہے ۔ کسی اور کے پاس جاؤ ، موسیٰ (علیہ السلام)کے پاس جاؤ‘‘۔ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اورعرض کریں گے ’’اے موسیٰ (علیہ السلام)! آپ اللہ کےرسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیغام اور اپنی ہم کلامی کے ذریعے لوگوں پر فضیلت عطا کی، اللہ کے حضور ہمارے لیے سفارش کیجیے، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟‘‘۔ موسیٰ (علیہ السلام) ان سے کہیں گے کہ ’’میرا ب آج اس قدر غصے میں ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اس قدر غصے میں آیا اور نہ اس کے بعد آئے گا۔ میں ایک جان کو قتل کر چکا ہوں جس کے قتل کا مجھے حکم نہ دیا گیا تھا۔ میری جان(کا کیا ہو گا) میری جان، (کا کیا ہو گا)، میری جان(کا کیا ہو گا) میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ، عیسیٰ (علیہ السلام)کے پا س جاؤ‘‘۔ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے ’’ اے عیسیٰ (علیہ السلام)! آپ اللہ کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم (علیہا السلام)کی طرف اِلقا کیا اور اس کی روح ہیں ، اس لیے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں، آپ ہماری حالت نہیں دیکھتے جس میں ہم ہیں ؟‘‘ تو عیسیٰ (علیہ السلام) انہیں جواب دیں گے کہ ’’ میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں نہ وہ اس سے پہلے آیا اور نہ آئندہ کبھی آئے گا، وہ اپنی کسی خطا کا ذکر نہیں کریں گے، (کہیں گے مجھے) اپنی جان کی فکر ہے ، اپنی جان کی فکر ہے ، اپنی جان کی فکر ہے ۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ، ایسا کرو تم محمدﷺ کے پاس جاؤ‘‘۔ لوگ میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے ، ایک روایت میں ہے کہ ’’ وہ میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے محمد(ﷺ)! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں ، اپنے رب کےحضور ہماری سفارش فرمائیں ، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟‘‘ تو میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آؤں گا اور اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی ایسی تعریفوں اور اپنی ایسی بہترین ثنا (کے دروازے) کھول دے گا اور انہیں میرے دل میں ڈالے گا جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے نہیں کھولے گئے ہوں گے، پھر (اللہ ) فرمائےگا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیں، مانگیں، آپ کو ملے گا ، سفارش کریں، آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا ’’اےمیرے رب ! میری امت ! میری امت ! توکہا جائے گا! اے محمد! آپ کی امت کے جن لوگوں کا حساب و کتاب نہیں ہونا ہے، انہیں جنت کے دروازے میں سے دائیں دروازے سے داخل کر دیں اور وہ جنت کے باقی دروازوں میں (بھی) لوگوں کے ساتھ شریک ہیں ۔ پھر فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ)کی جان ہے ! جنت کے دو کواڑوں کے درمیان اتنا (فاصلہ) ہے جتنا مکہ اور (شہر) ہجر یا مکہ اور بصری کے درمیان ہے‘‘۔
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: كنا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في دعوة، فَرُفِعَ إليه الذِّرَاعُ، وكانت تعجبه، فَنَهَسَ منها نَهْسَةً وقال: «أنا سَيِّدُ الناس يوم القيامة، هل تدرون مِمَّ ذاك؟ يجمع الله الأولين والآخرين في صَعِيدٍ واحد، فيُبْصرُهُم الناظر، يُسْمِعُهُمُ الداعي، وتَدْنُو منهم الشمس، فيبلغ الناس من الغَمِّ والكَرْبِ ما لا يُطيقُون ولا يحتملون، فيقول الناس: ألا ترون ما أنتم فيه إلى ما بَلَغَكُم، ألا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم؟ فيقول بعض الناس لبعض: أبوكم آدم. فيأتونه فيقولون: يا آدم أنت أبو البشر، خلقك الله بيده، ونفخ فيك من روحه، وأمر الملائكة فسجدوا لك، وأسكنك الجنة، ألا تشفع لنا إلى ربك؟ ألا ترى إلى ما نحن فيه وما بلغنا؟ فقال: إن ربي غضب اليوم غضبًا لم يغضب قبله مثله، ولا يغضب بعده مثله، وإنه نهاني عن الشجرة فعصيتُ، نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى نوح، فيأتون نوحًا فيقولون: يا نوح، أنت أول الرسل إلى أهل الأرض، وقد سماك الله عبدًا شكورًا، ألا ترى إلى ما نحن فيه، ألا ترى إلى ما بلغنا، ألا تشفع لنا إلى ربك؟ فيقول: إن ربي غضب اليوم غضبًا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإنه قد كانت لي دعوة دعوتُ بها على قومي، نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى إبراهيم، فيأتون إبراهيم فيقولون: يا إبراهيم، أنت نبي الله وخليله من أهل الأرض، اشْفَعْ لنا إلى ربك، ألا ترى إلى ما نحن فيه؟ فيقول لهم: إن ربي قد غضب اليوم غضبًا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإني كنت كذبت ثلاث كَذَبَات؛ نفسي نفسي نفسي، اذْهَبُوا إلى غيري، اذْهَبُوا إلى موسى، فيأتون موسى فيقولون: يا موسى أنت رسول الله، فضلك الله برسالاته وبكلامه على الناس، اشْفَعْ لنا إلى ربك، ألا ترى إلى ما نحن فيه؟ فيقول: إن ربي قد غضب اليوم غضبًا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإني قد قتلت نفسًا لم أُومَرْ بقتلها، نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري؛ اذهبوا إلى عيسى. فيأتون عيسى فيقولون: يا عيسى، أنت رسول الله وكلمته ألقاها إلى مريم وروح منه، وَكَلَّمْتَ الناس في المهد، اشْفَعْ لنا إلى ربك، ألا ترى إلى ما نحن فيه؟ فيقول عيسى: إن ربي قد غضب اليوم غضبًا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، ولم يذكر ذنبًا، نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى محمد -صلى الله عليه وسلم-». وفي رواية: «فيأتوني فيقولون: يا محمد أنت رسول الله وخاتم الأنبياء، وقد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر، اشْفَعْ لنا إلى ربك، ألا ترى إلى ما نحن فيه؟ فأنْطَلِقُ فآتي تحت العرش فأقع ساجدًا لربي، ثم يفتح الله عليَّ من مَحَامِدِه وحُسْنِ الثناء عليه شيئًا لم يفتحه على أحد قبلي، ثم يقال: يا محمد ارفع رأسك، سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فأرفع رأسي، فأقول: أمتي يا رب، أمتي يا رب، أمتي يا رب. فيقال: يا محمد أدخلْ من أمتك من لا حساب عليهم من الباب الأيمن من أبواب الجنة، وهم شركاء الناس فيما سوى ذلك من الأبواب». ثم قال: «والذي نفسي بيده، إن ما بين الْمِصْرَاعَيْنِ من مصاريع الجنة كما بين مكة وهَجَر، أو كما بين مكة وبُصْرَى».
شرح الحديث :
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ ایک دن ہم رسو ل اللہ ﷺ کے ساتھ کھانے کی ایک دعوت میں تھے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں دست (کا گوشت) اٹھا کر پیش کیا گیا تو آپ نے اپنے دانتوں سے نوچ کر کھایا اور آپ کو بکری کی دست بڑی مرغوب تھی، کیونکہ بکری کے پورے جسم میں سے اس حصے کا گوشت بہترین اور نرم ہوتا اور زود ہضم اور فائدہ مند ہوتا ہے۔ چونکہ نبی کریم ﷺ کو یہ بڑی مرغوب تھی اس لیے آپ ﷺ نے اپنے دندان مبارک سے ایک بار اسے تناول فرمایا اور پھر یہ طویل حدیث بیان فرمائی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں قیامت والے دن آدم کی اولاد کا سردار ہوں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم ﷺ آدم کی اولاد کے سردار اور اللہ تعالیٰ کے ہاں انسانوں میں سے سب سے اعلیٰ ہیں۔ پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہو گا؟تو صحابہ نے جواب دیا اے اللہ کے رسولﷺ! نہیں۔ آپ ﷺ نے ان کے سامنے تمام بنی آدم پر اپنا مرتبہ اور فضیلت کو بیان کیا۔ فرمایا کہ قیامت والے دن پہلے اور بعد والے تمام لوگوں کو ایک ہموار اور وسیع زمین میں اکٹھا کیا جائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’فرما دیجیے کہ پہلے اور آخری سارے لوگ ایک معین دن پر جمع کیے جائیں گے‘‘۔ ایک ہی زمین پر سب کو جمع کیا جائے گا اور اس دن جو زمین پھیلائی جائے گی وہ ایسی نہیں ہو گی جیسی اب دیکھتے ہو۔ آج جب تم نظر دوڑاتے ہو تو جو سامنے ہوتا ہے صرف وہی نظر آتا ہے، جب کہ قیامت کے دن زمین بالکل سیدھی پھیلا دی جائے گی اور اس میں کسی قسم کے کوئی بھی پہاڑ، وادیاں، نہریں اور سمندر نہیں ہوں گے۔اس میں موجود تمام داعی کی بات کو سنیں گے اور ان کی بینائی کی رسائی بھی ہو گی۔ یعنی جب کوئی انسان بات کرے گا تو ہر ایک سنے گا اور سارے اس کو دیکھیں گے کیونکہ کوئی بھی کسی سے چھپا نہیں ہو گا لیکن سارے کے سارے ایک چٹیل زمین پر ہوں گے۔ اس دن سورج مخلوق سے ایک میل کی مسافت پر ہو گا اور ایسے کرب وغم میں مبتلا ہوں گے کہ اس کو برداشت کرنے کی طاقت اور قوت نہیں ہوگی۔ زمین تنگ ہو جائے گی اور وہ خواہش کریں گے کہ کوئی ایک اللہ کے ہاں ان کی سفارش کرے جو ان کو جلد از جلد اس بڑے وقوف سے بچا لے۔ اللہ تعالیٰ ان کو الہام کریں گے کہ وہ ابو البشر آدم (علیہ السلام)کے پاس جائیں۔ وہ ان کے پاس آئیں گے اور ان کے فضائل بیان کریں گے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی سفارش کریں۔ ان سے کہیں گے کہ آپ ابو البشر ہیں اور قیامت تک جتنے بھی نر ومادہ انسان پیدا ہوئے وہ سارے کے سارے بنی آدم ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے انکار پر فرمایا تھا کہ :’’تجھے کس چیز نے اس کو سجدے سے منع کیا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ۔‘‘،آپ کو ملائکہ سے سجدہ کرایا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا۔‘‘،اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کے نام سکھائے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’آدم (علیہ السلام) کو تمام نام سکھائے۔‘‘اور آپ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح کو پھونکا جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:’’جب میں نے اس کو مکمل کیا تو اس میں اپنی روح پھونکی تو سارے اس کے سامنے سجدے میں گر گئے‘‘۔ یہ وہ ساری چیزیں ہیں جن کو مخلوق جانتی ہے جب کہ خاص طور پر امت محمد کو ایسے علوم سے اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے جو دیگر امتوں میں سے کسی کو نہیں نوازا۔ وہ معذرت کریں گے اور کہیں گے کہ میرا رب آج اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ اس کے بعد کبھی آئے گا پھر وہ اپنی خطا بتائیں گے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خاص درخت سے کھانے سے روکا تھا لیکن انہوں نے کھا لیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے’’اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ دونوں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے‘‘۔ اس کی سزا یہ ملی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی منشا کے مطابق ان کو جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا۔ وہ اپنی نافرمانی بیان کریں گے اور کہیں گے (آج تو ) میری اپنی جان (پر بنی) ہے، مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے ، مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے۔ یعنی آج تو اپنی جان بچانا ممکن ہو جائے اور اس کو تین مرتبہ تاکید اور تکرار کے ساتھ بیان کیا۔ میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ ، ایسا کرو نوح (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ اور نوح (علیہ السلام) دوسرے ابو البشر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اہلِ زمین کو نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی وجہ سے غرق کر دیا تھا (ہاں وہ چند ایک جو ان پر ایمان لے آئے تھے) ان کے علاوہ کسی کو زندہ نہیں چھوڑا۔ لوگ کہیں گے نوح (علیہ السلام) کی طرف چلو ،تو وہ نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے کیونکہ وہ بہت سختی اور تنگی کا شکار ہوں گے۔ وہ نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا تذکرہ کریں گے، یہ کہ وہ اللہ کے پہلے رسول ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اہلِ زمین کی طرف رسالت دے کر مبعوث فرمایا، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام شاکر بندہ رکھا۔ لیکن وہ بھی ویسے ہی کہیں گے جیسے آدم (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ میرا رب آج اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا پھر اس دعا کا تذکرہ کریں گے جو انہوں نے اپنی قوم کے خلاف کی تھی (اے رب کافروں کا کوئی بھی گھر روئے زمین پر نہ چھوڑنا) اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اس دعا کا ذکر کریں گے جو انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے کی تھی (انہوں نے کہا میرے رب! میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح وہ تیرے اہل میں سے نہیں وہ غیر صالح عمل والا ہے اس کے بارے میں سوال نہ کر جس کا تجھے علم نہیں میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ جاہلوں میں سے ہو جائے گا) وہ اپنے گناہ کا تذکرہ کریں گے۔ سفارشی نہیں سفارش کرے گا مگر جب اس کے اور مشفوع کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ ہو جو خوف پیدا کرتی ہو (تو سفارش کرسکتا) جب کہ معصیت بندے اور رب کے درمیان خوف اور شرمندگی پیدا کرتی ہے ۔وہ بھی اپنی نافرمانی کا تذکرہ کریں گے اور کہیں گے (آج تو ) میری اپنی جان (پر بنی) ہے ،مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے ، مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے۔ان کو ابراہیم (علیہ السلام) کا حوالہ دیا جائے گا تو لوگ ان کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اللہ کی زمین پر آپ خلیل اللہ ہیں، ان کی صفات بیان کریں گے اور خواہش کریں گے کہ اللہ کے ہاں ان کی سفارش کریں۔ تو وہ بھی معذرت کریں اور کہیں گے کہ ان کے تین جھوٹ ہیں اور کہیں گے (آج تو ) میری اپنی جان (پر بنی) ہے ،مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے، مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے۔ وہ جھوٹ یہ تھے: اولاً: انی سقیم (میں بیمار ہوں) حالاں کہ وہ بیمار نہیں تھے لیکن انہوں نے ایسا اپنی قوم کو چیلنج کے طور پر کہا کیونکہ وہ ستاروں کی عبادت کرتے تھے۔ ثانیاً:ان کا یہ کہنا: {بل فعله كبيرهم هذا} (ان میں سے جو بڑا ہے اس نے کیا ہے) یعنیبڑے بت نے کیا ہے۔ حالانکہ وہ اس نے نہیں کیا تھا بلکہ وہ ابراہیم علیہ السلام کا فعل تھا جب کہ انہوں نے چیلنج کرنے کے انداز میں یہ کہا کیونکہ وہ لوگ بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ ثالثاً: ان کا کافر بادشاہ سے یہ کہنا کہ یہ میری بہن ہے۔ یعنی اپنی بیوی کو اس کے شر سے بچانے کے لیے کہا حالانکہ ایسا تھا نہیں۔ ظاہراً یہ جھوٹ ہیں لیکن حقیقت میں اور اس کی مناسب تاویل جو نبی کریم ﷺ نے فرمائی کہ جھوٹ نہیں تھے لیکن مضبوط تقویٰ اور اللہ سے حیا کی وجہ سے اس کو عذر بنائیں گے اور کہیں گے (آج تو ) میری اپنی جان (پر بنی) ہے، مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے ، مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے۔ میرے علاوہ کسی اور کے پاس چلے جاؤ، موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ۔ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان کی صفات بیان کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام کی ہے، آپ کو اہلِ زمین پر اپنی رسالت اور کلام کے ساتھ منتخب فرمایا ہے ۔تو وہ بھی اپنی خطا کا تذکرہ کریں گے اور معذرت کریں گے کہ انہوں نے ایک شخص کو جان بوجھ کو قبل از اجازت ہی قتل کر دیا تھا جوکہ ایک قبطی تھا اور بنی اسرائیل میں سے کسی آدمی کے ساتھ جھگڑ رہا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام)بنی اسرائیل میں سے تھے اور قبطی فرعونیوں میں سے تھا (ان کے گروہ کے شخص نے اپنے دشمن کے خلاف موسیٰ علیہ السلام سے مدد طلب کی،انہوں نے مکاّ مارا تو وہ مر گیا) بغیر حکم کے اس کو قتل کردیا۔ رسول اللہ ﷺ کا خیال ہے کہ یہ چیز ان کے اور مخلوق کی سفارش کے درمیان حائل ہو جائے گی کہ انہوں نے ایک جان کو بغیر حکم کے قتل کر دیا تھا اور وہ بھی کہیں گے (آج تو ) میری اپنی جان (پر بنی) ہے، مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے، مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے۔ میرے علاوہ کسی اور کے پاس چلے جاؤ، تم سب عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ۔ وہ عیسیٰ(علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تذکرہ کریں گے کہ ان میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح کو پھونکا اور یہ کہ وہ اللہ کا کلمہ ہیں جن کو مریم (علیہا السلام) کی طرف اِلقا کیا اور اس کی روح ہیں، یہ کہ ان کو بغیر باپ کے پیدا کیا۔ وہ کوئی گناہ بیان نہیں کریں لیکن لوگوں کو محمدﷺ کا حوالہ دیں گے ۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا عظیم شرف ہے کہ چار انبیاء اپنے کاموں کو بیان کر کے معذرت کر لیں گے اور ایک کوئی عذر پیش نہیں کریں گے لیکن ان کا خیال ہے کہ محمدﷺ ان سے زیادہ مناسب ہیں۔ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں گے آپ ان کی بات مان لیں گے اور اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے سجدہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنی حمد و ثناء کے ان پر ایسے در وا کریں گے کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے وہ دروازے کسی کے لیے نہیں کھولے ہوں گے۔ پھر آپ سے کہا جائے گا کہ سر اٹھائیے، کہیے آپ کی بات سنی جائے گی، سوال کیجئے عطا کیا جائے،سفارش کیجئے سفارش قبول کی جائے گی۔رسول اللہﷺ سفارش کریں گے اور فرمائیں گے اے رب! میری امت،میری امت! اللہ تعالیٰ ان کی سفارش قبول فرمائے گا اور آپ سے کہے گا کہ اپنی امت کو جنت کے دائیں دروازے سے داخل کر لیں اور یہ دیگر لوگوں کے ساتھ باقی دروازوں میں بھی شریک ہوں گے۔ اس میں یہ واضح دلیل موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ تمام رسولوں میں سے افضل ہیں اور رسول افضل الخلائق ہیں۔