توحيد الأسماء والصفات
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو میں اسے تلوار کو اس سے موڑے بغیر (دھار کو دوسری طرف کئے بغیر سیدھی تلوار) ماروں گا۔ رسول اللہ ﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا ” تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو ؟ اللہ کی قسم ! میں اس سے بھی زیادہ باغیرت ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی زیادہ غیور ہے اللہ نے غیرت کی وجہ سے ہی ان تمام فواحش کو، ان میں سے جو علانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں سب کو حرام ٹھہرایا ہے اور اللہ سے زیادہ کوئی شخص غیور نہیں نیز اللہ سے زیادہ کسی شخص کو معذرت پسند نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے رسول بھیجے ہیں اور اللہ سے زیادہ کسی کو تعریف پسند نہیں، اسی لیے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے“۔  
عن المغيرة بن شعبة -رضي الله عنه- مرفوعاً: قال سعدُ بنُ عُبَادة -رضي الله عنه- : لو رأيتُ رجلًا مع امرأتي لَضربتُه بالسيف غير مُصْفِح عنه، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «أتعجبون من غَيْرة سعد، فوالله لأنا أغير منه، واللهُ أغير مني، من أجل غَيْرة الله حَرَّم الفواحش، ما ظهر منها، وما بطن، ولا شخص أغير من الله، ولا شخص أحبّ إليه العُذر من الله، من أجل ذلك بعث الله المرسلين، مُبشِّرين ومنذِرين، ولا شخص أحبّ إليه المِدحةَ من الله، من أجل ذلك وعد الله الجنة».

شرح الحديث :


سعد بن عُبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر میں کسی شخص کو اپنی عورت کے ساتھ دیکھ لوں تو میں تلوار کی سیدھی دھار کے ساتھ اس کی گردن اڑا دوں، یعنی اسے قتل کرنے میں توقّف نہ کروں۔ آپ ﷺ نے انہیں اس بات پر قائم رکھتے ہوئے فرمایا کہ میں سعد سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالی مجھ سے زیادہ غیور ہے۔ غیرت، اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے اور اللہ کی غیرت مخلوق کی غیرت کی طرح نہیں، بلکہ اللہ کی عظمت کے مطابق ہے جیسے غصہ اور رضامندی اور دیگر اللہ کی خصوصیات جن میں لوگ اللہ کے ساتھ شریک نہیں۔ لغت میں شخص کا معنی خاص، بلند اور ظاہر ہونے کے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے ظاہر، عظمت والے اور بڑا ہے۔ اہل سنت و جماعت جو قرآن و سنت کو لازم پکڑتے ہیں ان کے اصول کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لیے غیرت کا لفظ بولنا ممنوع نہیں۔ پھر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا «ومن أجل غيرة الله حرم الفواحش، ما ظهر منها، وما بطن» یعنی یہ اللہ کی غیرت ہی کا اثر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فُحش کاموں کے قریب جانے سے اپنے بندوں کو روک دیا ہے۔’فُحش‘ سے مُراد کام جن کی شناعت اور بُرا ہونا پاکیزہ لوگوں اور عقل سلیم والوں کے ہاں مسلم ہو جیسے زنا۔ ظاہر سے مُراد اعلانیہ کیے جانے والے تمام گناہ اور وہ گناہ ہیں جن میں اعضاء کا براہِ راست دخل ہوتا ہے اگرچہ وہ پوشیدہ ہی ہوں۔ اور باطن سے مُراد جو پوشیدہ ہوں اور دلوں میں ہوں۔ «ولا أحد أحب إليه العذر من الله، ومن أجل ذلك بعث المرسلين مبشرين ومنذرين» یعنی اللہ نے پیغمبروں کو لوگوں کی طرف عذاب سے پہلے ڈرانے اور خوشخبری دینے کے لیے بھیجا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ‘‘۔ (ترجمہ: ہم نے انہیں رسول بنایا ہے، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاه کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر ره نہ جائے)۔«ولا أحد أحب إليه المِدحة من الله، ومن أجل ذلك وعد الله الجنة» یہ اللہ تعالیٰ کے کاملِ مطلق ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف سے اپنے فضل اور سخا کی ثنا و تعریف سے خوش ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ہر طرح کی نعمت دے کر سخاوت کا مظاہرہ کیا جس سے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں، اور نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے وہ خوش ہوتا ہے۔ لوگ جب بھی اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں تو وہ اس میں اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کر سکتے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف خود بیان کی اور جنت کا وعدہ کیا تاکہ لوگ اللہ سے زیادہ مانگیں اور اس زیادہ سے زیادہ حمد و ثنا بیان کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق اس کی کوشش کریں۔ اس لیے کہ جنت تمام انعامات کی انتہا ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية