الأذكار للأمور العارضة
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے اور رات ہو جاتی تو فرماتے: «يَا أَرْضُ رَبِّي وَرَبُّكِ اللَّهُ، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكِ وَشَرِّ مَا فِيكِ وَشَرِّ مَا خُلِقَ فِيكِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَدِبُّ عَلَيْكِ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ أَسَدٍ وَأَسْوَدَ وَمِنَ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ وَمِنْ سَاكِنِ الْبَلَدِ وَمِنْ وَالِدٍ وَمَا وَلَدَ» ”اے زمین! میرا اور تیرا رب اللہ ہے، میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں تیرے شر سے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں ہے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں پیدا کی گئی ہے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ پر چلتی ہے اور اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیر اور کالے ناگ سے اور سانپ اور بچھو سے اور زمین پر رہنے والے (انسانوں اور جنوں) کے شر سے اور جننے والے کے شر اور جس چیز کو اس نے جنا ہے اس کے شر سے“۔
عن عبدالله بن عمر -رضي الله عنهما- كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إذا سافر فأقبل الليلُ، قال: «يا أرضُ، ربي وربُّك الله، أعوذ بالله مِن شَرِّكِ وشر ما فيك، وشر ما خُلق فيك، وشر ما يَدُبُّ عليك، وأعوذ بِك من شر أسد وأسود، ومن الحية والعقرب، ومن ساكِن البلد، ومن والد وما ولد».
شرح الحديث :
"يا أرض، ربي وربك الله" یعنی جب میرا اور تمہارا خالق اللہ ہے، تو اسی کے شایانِ شان ہے کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے اور اس کے ساتھ شرک سے پناہ مانگی جائے۔ "أعوذ بالله من شرك" یعنی وہ شر جو اللہ کی تقدیر سے تیری ذات میں ہے جیسے دھنسنا، زلزلہ، راستے سے گرنا، صحراؤں میں گم ہوجانا۔ "وشر ما فيك" یعنی اس نقصان سے جو تیرے اندر سے نکلے اور انسان کی ہلاکت کا سبب بنے جیسے درخت اور پانی کی ہلاکت۔ "وشر ما خلق فيك" یعنی کیڑے مکوڑوں وغیرہ سے۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کی زیادہ تشریح کی ضرورت نہیں۔ اس کے بارے میں تنبیہ کرنے کے لیے اسے یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔