الأدعية المأثورة
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں جانے کے لیے جب اپنے اونٹ پر سوار ہو جاتے، تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے، پھر یہ دعا پڑھتے: ”سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ اللّهُـمَّ إِنّا نَسْـأَلُكَ في سَفَـرِنا هذا البِـرَّ وَالتَّـقْوى، وَمِنَ الْعَمَـلِ ما تَـرْضى، اللّهُـمَّ هَوِّنْ عَلَـينا سَفَرَنا هذا وَاطْوِ عَنّا بُعْـدَه، اللّهُـمَّ أَنْـتَ الصّـاحِبُ في السَّـفَر، وَالْخَلـيفَةُ في الأهـلِ، اللّهُـمَّ إِنّـي أَعـوذُبِكَ مِنْ وَعْـثاءِ السَّـفَر، وَكَآبَةِ الْمَنْـظَر، وَسوءِ الْمُنْـقَلَبِ في المـالِ وَالأَهْـل والوَلَد“۔ ترجمہ: پاک ہے وہ اللہ، جس نے اس(سواری)کو ہمارے تابع کر دیا، جب کہ ہم اس کو قابو میں لانے والے نہیں تھے، اور ہمیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ اے اللہ! بلاشبہ ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ اور ایسے اعمال کا سوال کرتے ہیں، جن میں تیری رضا شامل ہو۔ اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے اس سفر کو آسان فرما دے اور ہمارے لیے اس سفر کی مسافت کو لپیٹ دے۔ اے اللہ! تو ہی رفیق سفر ہے اور تو ہی اہل و عیال میں نائب ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے سفر کی تکلیف ومشقت سے اور اذیت ناک منظر سے اور مال اور اہل میں ناکام لوٹنے کی برائی سے، تیری پناہ طلب کرتا ہوں“۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس لوٹتے، تو مذکورہ دعا پڑھتے اور اس میں اتنا اضافہ کرتے: ”آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ“ ترجمہ: ہم امن و سلامتی کے ساتھ سفر سے لوٹنے والے، اپنے رب سے توبہ کرنے والے، اس کی عبادت اور حمد و ثنا کرنے والے ہیں“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ حج یا عمرہ سے واپسی کے وقت جب کسی بلند جگہ یا سخت اونچی زمین کا چڑھاؤ چڑھتے، تو تین مرتبہ ”اللہ اكبر“ کہتے اور یہ دعا پڑھتے: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، آيِبُونَ تَائِبُونَ ، عَابِدُونَ سَاجِدُونَ ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ، صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ۔ ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اسی کی ہے، حمدو ثنا کا وہی مستحق ہےاوروہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ہم واپس ہو رہے ہیں ، توبہ کرتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے، اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور اس کی حمد کرتے ہوئے، اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا ، اپنے بندے کی مدد کی اور سارے لشکر کو تنہا شکست دے دی"۔ بعض جگہوں میں یوں وارد ہےکہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بڑے لشکروں یا چھوٹے دستوں( کی مہموں) سے یاحج یا عمرے سے لوٹتے..."  
عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان إذا استَوَى على بَعِيره خارجًا إلى سَفَر، كَبَّرَ ثلاثا، ثم قال: «سبحان الذي سخَّر لنا هذا وما كُنَّا له مُقْرِنِينَ وإنَّا إلى ربِّنا لـمُنْقَلِبُون، اللهم إنَّا نَسْأَلُك في سفرنا هذا البِرَّ والتَّقْوَى، ومن العمل ما تَرْضَى، اللهم هَوِّنْ علينا سفرنا هذا واطْوِ عنا بُعْدَه، اللهم أنت الصاحب في السفر، والخليفة في الأهل، اللهم إني أعوذ بك مِن وَعْثَاء السفر، وكآبة الـمَنْظر، وسوء الـمُنْقَلَب في المال والأهل والولد». وإذا رجع قالهن. وزاد فيهن «آيبون تائبون عابدون لِربنا حامدون». وفي رواية: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا قَفَل من الحج أو العمرة، كلما أَوْفَى على ثَنِيَّة أو فَدْفَدٍ كَبَّرَ ثلاثا، ثم قال: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، آيِبون، تائبون، عابدون، ساجدون، لربنا حامدون، صدَق الله وَعْدَه، ونصَر عَبْدَه، وهزَم الأحزابَ وحده». وفي لفظ: إذا قَفَل من الجيوش أو السَّرايا أو الحج أو العمرة.

شرح الحديث :


عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما اس حدیث میں اس بات کی وضاحت فرما رہے ہیں کہ نبی ﷺ جب کبھی سفر کا ارادہ فرماتے اور اپنی سواری پر سوار ہو جاتے تو تین مرتبہ ”اللہ اکبر“ کہتے اور پھر اس عظیم دعا کو پڑھتے، جس میں متعدد عظیم الشان معانی شامل ہیں۔ چنانچہ اس دعا میں اللہ عز وجل کے محتاجی اور نقائص و عیوب سے پاک و منزہ ہونے کا ذکر کیا گیا، بندے میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احساس و شعور بیدار کیا گیا، اس میں (بندے کی جانب سے اپنے اندر ہر قسم کی) طاقت و قوت کے نہ ہونے کا اعتراف پنہاں ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی جانب رجوع کرنے کا اقرار ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ہی کی بارگاہ سے خیر و بھلائی اور فضل و شرف اورتقویٰ اور اس کے نزدیک محبوب اور مقبول عمل کی توفیق طلب کی جارہی ہے۔ نیز اس میں اللہ تعالیٰ ہی پر توکل و اعتماد کرنےاور تمام امور (کے نتائج) کو اسی کے حوالے و سپرد کر دینے کا معنی پایا جاتا ہے۔ نیز اس میں اپنی جان اور اہل و عیال کے تحفظ، سفر کی محنت و مشقت کو ہلکا کرنے اور اس میں پائے جانے والے برے و بدتر حالات اور نقصانات سے پناہ طلب کرنے کی دعاکے معانی پائے جاتے ہیں کہ(کہیں ایسا نہ ہو کہ)مسافر اپنے سفر سے واپس لوٹے اور اس کو اپنے اہل و عیال یا مال یا اس کی اولاد میں کوئی بدتر منظر و حالت نظر آئے۔ ابن عمر رضی اللہ عنھما نے ایک دوسری روایت میں ذکر کیا کہ نبی ﷺ جب واپس لوٹتے تو مذکورہ بالا دعا فرماتے اور اس میں یہ دعا اضافہ فرماتے: ”آيِبُونَ“ یعنی ہم رفقا سفر کی جماعت، ”تَائِبُونَ“اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے، ”عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ“ یعنی اپنے پروردگار کی عبادت اور اس کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے لوٹ رہے ہیں. اور آپ ﷺ جب کبھی کسی اونچے مقام کی جانب چلتے تو ”اللہ اکبر“ کہتے اور اللہ عز وجل کی کبریا کے بالمقابل اپنی فروتنی و کسر نفسی کا بار بار اظہار فرماتے اور پھر یہ کلمۂ شہادت پڑھتے: ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ“ جس میں اس بات کا اقرار پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی الوہیت، اپنی ربوبیت اور اپنے اسما و صفات میں تنہا و یکتا ہے اور وہی صاحب جلال اور اعلی ذات، اپنے اولیا اور اپنے لشکروں کی نصرت و مدد کرنے والی ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية